فکر مصباح

[follow_me]تحریر- نسیم

مصباح کی باتوں کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ، حقیقت مطلق کے بارے میں وہ جرمن فلاسفر فشٹے، شیلنگ اور ھیگل کے نظریے کا حامی تھا جس کی رو سے آگاہ عقل یا ذھن ھی حقیقت مطلق ھے۔ وہ اندھے آفاقی ارادے کو حقیقت مطلق نہیں مانتا تھا۔ خدا کے بارے میں وہ تشکیکی کتابوں کے مطالعہ سے ایک عجیب کشمکش میں مبتلا رھتا تھا۔ اس کا رویہ خدا کے ساتھ بالکل ایک بچے کی مانند تھا وہ کہتا تھا، جب کوئی بچہ کسی بڑے سے پوچھتا ھے کہ ’’چاند سورج، زمین، دریا اور جانداروں کو کس نے پیدا کیا ھے‘‘؟ تو ھمارے بڑے جواب میں فرماتے ھیں کہ ’’ تمام اشیاء کو، حتیٰ کہ مجھے اور تم کو ، دن اور رات کو اور تمام کائنات کو خدا نے پیدا کیا ھے‘‘

بچہ دوبارہ پوچھتا ھے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ خدا کو کس نے پیدا کیا ھے؟ تو ھمارے بڑے ھمیں یہ کہہ کر خاموش کر دیتے ھیں کہ اس سے آگے سوچنا گناہ ھے۔ یعنی ھمارے بڑوں کو ان کے بڑوں کو اور اسی طرح نسل در نسل ھمیں تصور گناہ کے ذریعے سوچنے کے عمل سے روک دیا گیا ھے جس سے ھمارے ھاں سوچنے اور تحقیق کا عمل رک گیا ھے اور جہاں تحقیق کا عمل رک جائے وھاں ارتقاء کا عمل بھی رک جاتا ھے۔

تصورِ گناہ کے ذریعے سوچنے اور تحقیق کے راستے میں دیوار کھڑی کر دی گئی ھے ۔ھمارے بڑوں نے گناہ کے خوف سے سوچنا چھوڑ دیا ھے، مگر بچے کا ذھن اور دل آزاد ھوتے ھیں اور وہ ساری عمر چھپکے چھپکے اور تنہائی میں ان سوالات کی گتھی سلجانے میں سر کھپاتا رھتا ھے کہ ’’خدا کو کس نے بنایا ھے‘‘؟یہاں سے فلسفہ کا آغاز ھوتا ھے اور اس ذات کو ثابت کرنے اور رد کرنے والے لوگ علم و مطالعہ اور اپنے تجربات اور کیفیات ، خوف اور امید، نفس اور نفسیات کے توسط سے اس ذات یکتا اور خالقِ کُل کو پا بھی لیتے ھیں اور اپنی تحقیقی تشنگی کی وجہ سے انکار بھی کرتے ھیں اور یہ سلسلہ یونہی بدستور جاری و ساری ھے۔

خدا نہ اپنے اثبات کا محتاج ھے نہ اپنے انکار سے خفاء ۔بالعموم معاشرے میں تقلید کرنے والوں کو نیک اور مذھبی افراد کہا جاتا ھے جنہیں ھم سنّتی , مقلدین کہتے ھیں یعنی جب تک آپ تقلید نہیں کریں گے یا سنت پر نہیں چلیں گے آپ ایک مکمل مذھبی انسان نہیں کہلا سکتے اور نہ ھی آپ کی عبادت اور نیکیاں قابل قبول ھوں گی ۔

لیکن بعض لوگ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ھوتے ھیں جو سوچنے اور تحقیق کرنے کی ھمت رکھتے ھیں اور تقلید سے ان کے اندر کی پیاس نہیں بجھتی۔ ایسے لوگ عام مذھبی افراد کی نظروں میں پاگل ، گمراہ یا پھر ملحد بن جاتے ھیں حالانکہ وھی دراصل نابغہ ھوتے ھیں۔ وہ جو خدا کو نہیں مانتے ان کے دل میں اضطراب ،درد اور کرب بھی زیادہ ھوتے ھیں وہ خدا کے بغیر خود اپنا وجود اپنے کاندھے پر اٹھائے زندگی کی راہ پر چلتے رھتے ھیں ،وہ اپنے اندر اخلاقیات کا ایک پیمانہ بنا لیتے ھیں جس سے ان میں پیغمبرانہ صفات پیدا ھوتے ھیں۔

ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق ’’روشن فکرانِ عصر، پیغمبرانِ عصر خود ھستند‘‘ جیسے نیطشے، سپائینوزا، رسل ، مارکس اور اینگلس وغیرہ۔ جس طرح مارکس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب ۔

فلسفہ تمام علوم کی ماں ھے

مذاھب اور الہٰیات فلسفہ کی مابعدالطبیعاتی شاخیں ھیں اور سائنس اور فلکیات اس کی دوسری شاخیں۔ حکومتی نظام، سیاسیات، جمہوریت، فنون لطیفہ اور نفیسات اس کے بچے ھیں اور فزکس و کیمسٹری ان کی بیٹیاں۔ فلسفہ کی مابعدالطبیعاتی مباحث کی روشنیوں سے مذاھب نے توانائی حاصل کی ھیں۔ انہی روشنیوں سے استفادہ کرکے خدا نے اپنے آپ کو انسانوں پر ظاھر کر دیا تھا اور سائنس تو ھے ھی فلسفہ کا لاڈلا بیٹا جس نے انسان کو چاند پر پہنچا دیا ھے۔

ملحد چونکہ خدا کا منکر ھے اس لئے ایک ملحد پر اخلاقی ذمہ داریاں ایک مقلد کی نسبت زیادہ ھوتی ھیں۔ ایک مقلد اس آسرے پر گناہ کا مرتکب ھوتا ھے کہ خدا معاف کرنے والا ھے اور توبہ کو قبول کرتا ھے مگر ملحد جو کسی خدا پر یقین ھی نہیں رکھتا اس کے لئے گناہ کرنے کا مطلب یہ ھوگا کہ اس نے خود کو دھوکہ دیا ھے اس لئے وہ گناہ کے تصور کو بھی گناہ سمجھتا ھے کہاں یہ کہ وہ گناہ کو عملی طور پر انجام بھی دے۔

عالم مصباح ابن رشد کے فلسفہ سے بہت متاثر تھازمین پر زلزلہ آنے کی وجوھات بیان کرتے ھوئے پرانے زمانے کے دانشور کہتے تھے کہ زمین گاؤ ماھی کے سینگ پر ٹکی ھوئی ھے جب گاؤماھی کا ایک سینگ تھک جاتا ھے تو وہ زمین کو دوسرے سینگ پر اُٹھا لیتا ھے اس لئے زمین ھلنے لگتی ھے اور زلزلہ پیدا ھوتا ھے۔ پھر پوچھنے والا پوچھتا ھے کہ گاؤماھی کس چیز پر کھڑی ھے تو وہ کہتے تھے کہ وہ ایک کچھوے کی پشت پر کھڑی ھے اور کچھوا کس پر کھڑا ھے؟ اس کے بعد وہ لاجواب ھوتے تھے۔ مگر آج سائنسی علم نے جس طرح زلزلے کی دقیق توجیہ پیش کی ھے اسی طرح نفسیات نے انسانی ذھن کی الجھنوں کو بھی کافی حد تک دریافت کرلی ھے۔

مصباح کا ماننا تھا کہ سچائی دو گونہ ھے۔ فلسفہ کی سچائی اور مذھب کی سچائی۔ دنیا کے تمام دانش گاھوں میں اسی بات کی تدریس کی جاتی ھے کہ مذھب اور فلسفہ کے حقائق یکساں اھمیت رکھتے ھیں۔ فلسفہ پہلے آزاد تھا پھر اسے مذھب کا غلام بنایا گیا۔ اور نشاۃ ثانیہ کے بعد فلسفہ کو مذھب کی غلامی سے نجات مل گئی۔ فرانسس بیکن نے قطعی طور پر فلسفہ کو مذھب سے جدا کردیا اس کے بعد فلسفے کا مطالعہ بحیثیت مستقل بالذّات موضوع کے ھونے لگا جس سے اھل مغرب آزادیء فکر و نظر سے روشناس ھوئے سوچنے اور تحقیق کے عمل کا آغاز ھوا اور سائنس کی ترقی کے لئے زمین ھموار ھوگئی۔

من ز قرآن مغز را برداشتم

استخوان پیش سگ انداختم


Join the Conversation