میں ہزارہ ہوں ۔ I am Hazara

تحریر: حسن رضا چنگیزی

کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران طلباء سیاست سے آشنائی ہوئی تو مطالعے کا شوق بھی پیدا ہوا۔ جیب میں عموماَچائے پینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے ایسے میں کتابیں کہاں سے خریدتے لہٰذا دوستوں سے کتابیں مانگ کر مطالعے کا شوق پورا کرنے کی سعی کرتے۔ہر نئی کتاب کے مطالعے سے اعتماد میں اضافہ ہونے لگتا۔تب سبط حسن،ڈاکٹر مبارک علی اور علی عباس جلالپوری ہمارے پسندیدہ رائٹرز تھے ان کے علاوہ سیاسی موضوعات پر لکھی کتابیں بھی اچھی لگتیں۔پسندیدہ مصنفین کی کوئی نئی کتاب بازار میں آتی تو اس کے فوری حصول اور مطالعے کے لئے ایک دوڑ سی لگ جاتی۔کتاب خریدنے کی ترکیبیں نکالی جاتیں اور کبھی کبھار چندہ کرکے کتاب کے حصول کا بندوبست بھی کیا جاتا۔اس جنون کے پیچھے جہاں مطالعے کا شوق کارفرما ہو تا وہاں دوستوں پر اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی آرزو بھی پوشیدہ ہوتی۔
newyork_hazaras
سیاسی محافل میں چونکہ مشکل فلسفیانہ اور سیاسی اصطلاحات کا کثرت سے استعمال عام تھااس لئے جہاں کہیں کسی موضوع پر بحث چھڑ جاتی ہم بھی ان کتابوں کے حوالے دے دے کر اور ان میں درج مشکل اصطلاحات کا سہارا لیکرسب پر اپنی علمیت کا رعب جمانے کی بھرپورکوشش کرتے۔ان مباحث کے دوران جس کی عالمانہ باتیں سب کے سرو ں کے اوپر سے گزر جاتی اسے سب سے بڑا دانشور تسلیم کرلیا جاتا۔اصطلاحات کی تشریح کے معاملے پر عموماَاختلاف دیکھنے میں آتاکیوں کہ ہر کوئی ان اصطلاحات کی من پسندتعریف یا تشریح کرتا۔تب ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ پیور سائنس کے برعکس سوشل سائنسز میں کسی اصطلاح کی واحد تشریح ممکن ہی نہیں۔کیوں کہ دنیا کے مختلف نقاط میں لوگوں کی بودوباش،ان کے عقائد، معاشرتی طرز زندگی اور انفرادی یا اجتماعی نفسیات دوسروں سے مختلف ہو سکتی ہے اس لئے ضروری نہیں کہ کسی مخصوص معاشرے کو سامنے رکھ کر تشکیل دیا گیا کوئی فارمولادنیا کے تمام معاشروں کے لئے ویسا ہی قابل عمل اور قابل قبول ہو۔

مجھے یاد ہے کہ ان دنوں بھی قوم اور قومیت یا تاریخ اور ثقافت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سیاست کے طالب علموں کو انہی مشکلات سے پالا پڑتا تھا۔لبرل اوربائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں اور طلباء تنظیموں میں گاہے بگاہے اس موضوع پر بڑی شدت سے بحث ہوتی کہ کس قسم کے لوگ قوم کہلانے کے لائق ہیں اور کن کو محض کمیونٹی قرار دیا جاسکتا ہے۔اس معاملے کو سلجھانے کی خاطرپاکستان کے نیشنلسٹ عناصر قوم کی جس تشریح پر زیادہ اکتفاء کرتے تھے اس کے مطابق ”ایسے بڑے انسانی نسلی گروہ قوم کہلوانے کے لائق ہیں جو مشترک تاریخ،زبان،ثقافت،عقیدہ اور خطہء زمین یا جغرافیہ کے مالک ہوں“۔بعض دانشور مشترکہ اقتصادی مفادات کو بھی ایک قوم کی خصوصیات کا لازمی حصہ سمجھتے تھے۔لیکن قوم کی یہ تشریح ہرگز ایسی نہیں تھی جو ہر شخص کی سوچ یا نظرئے کی مکمل ترجمانی کرتی اس لئے ہر شخص اپنی سوچ،نظریے اور سیاسی افکار کے مطابق اس تعریف میں کمی بیشی کرتا رہتا تھا۔

آج بھی مہذب دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں بہت بڑی تعداد میں ایک ہی عقیدے کے لوگ رہتے ہوں،جوایک ہی زبان بولتے ہوں، مشترک تاریخ رکھتے ہوں اور جن کی ایک جیسی ثقافت ہو۔دو ر کیوں جائیں۔پاکستان ہی کی مثال لیتے ہیں۔یہاں ایک بھی نسلی گروہ ایسا نہیں جو اوپر بیان کئے گئے فارمولے کے مطابق قوم کہلوانے کے قابل ہو۔ پنجابی،سندھی،بلوچ اور پشتون ایک سے زیادہ ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ان میں کوئی نسلی گروہ ایسا نہیں جوواحدزبان اور عقیدے کا حامل ہو۔اپنے آپ کوقوم ثابت کرنے کے لئے لے دے کے وہ ایک ہی دلیل کا سہارا لے سکتے ہیں کہ وہ ”اپنی سرزمین“ پر آباد ہیں اور ان کے خیال میں جو لوگ اپنی سرزمین پر بودوباش رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے ان کو قوم کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔اس سلسلے میں سندھ کے مہاجروں کی مثال دی جاتی ہے جو خود بھی اپنے آپ کو مہاجر کہلوانا پسندکرتے ہیں لہٰذا کروڑوں کی تعداد میں ہونے اور خود کو مہاجرقوم کہلوانے کے باوجوددوسروں کی نظر میں وہ قوم کہلوانے کے ہرگز مستحق نہیں۔اس کے برعکس کیلاش کی واددی میں قبل مسیح سے بسنے والے باشندے جو ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی زبان بھی مشترک ہے اور ثقافت بھی اور جو افغان علاقے نورستان(سابقہ کافرستان) کے کیلاشیوں کے برعکس ابھی تک اپنے سابقہ عقائد پرمضبوطی سے کاربند ہیں بیشتر قومی خصوصیات کے حامل ہونے کے باوجود محض ایک قبیلہ کہلاتے ہیں۔نام نہادمہذب دنیا سے دور، الگ تھلگ رہنے والے اور اپنے آپ میں مگن کیلاشیوں کو شاید اس بات کی پرواہ بھی نہیں کہ وہ قوم ہے یا قبیلہ؟ یا شاید انہیں اس بات کابخوبی اندازہ ہے کہ اگر وہ قوم کہلوانے کے مستحق بن بھی جائیں تو ان کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔انہیں نہ تو نئی ٹیکنالوجی کی فکر ہے نہ ہی ذرائع ابلاغ تک رسائی کی خواہش۔ انہیں اگر پیار ہے تو اپنے آپ سے،اپنے عقیدے سے اور اپنی ثقافت سے۔

طالب علمی کے دور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔غالباَ 1987/88 کی بات ہے۔عبدالولی خان اے۔این۔پی کے سربراہ کی حیثیت سے کوئٹہ کا دورہ کرنے والے تھے۔ان کے دورے سے کچھ دن قبل ANP بلوچستان کے صدرعبدالرحمٰن کردکا پیغام آیا کہ وہ ایچ ایس ایف کے دوستوں سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ کچھ سیاسی موضوعات پر تبادلہ خیال ہو سکے۔تب صرف ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن ہی ہزارہ قوم کاوہ واحد سیاسی ادارہ تھاجواپنی تمام تر بے سروسامانی کے باوجود طلباء معاملات کے علاوہ سیاسی پلیٹ فارم پر بھی قوم کی نمائندگی کا فریضہ انجام دینے پر مجبورتھا۔ہم نے اس ملاقات پر رضامندی ظاہر کردی۔ سینئر دوستوں اور ایچ ایس ایف کے سابق صدورحسین علی یوسفی اور نادر علی ہزارہ کے ساتھ جب ہم مقررہ وقت پر اے۔این۔پی کے صوبائی دفتر واقع ریگل پلازہ پہنچے تودوسروں کے علاوہ عبدالرحمٰن کُرد اور اے۔این۔پی کے مرکزی نائب صدر غلام سروریاسین زئی کو اپنا منتظر پایا۔بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا توعبدالرحمٰن کردنے بتایا کہ دراصل خان عبدالولی خان کی خواہش ہے کہ کوئٹہ میں بسنے والے ہزارہ سیاسی کارکنوں اور اے۔این۔ پی میں فاصلے کم ہو اور اگر ممکن ہو تو انہیں اے۔این۔پی میں شمولیت کی دعوت بھی دی جائے۔ اس دوران سب نے ایک بات نوٹ کی کہ کرد صاحب با ر بار ہزارہ”برادری“ کا لفظ استعمال کر رہے تھے۔ ایسے میں ہمارے ایک دوست کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اس نے ایک دم سے ایک سوال داغ دیا۔

”کرد صاحب آپ کا ڈیورنڈ لائن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ اسے تسلیم کرتے ہیں“؟ کرد صاحب نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا ”نہیں ہم اسے تسلیم نہیں کرتے“۔یاد رہے کہ تب پاکستان کی تقریباَتمام قوم پرست پارٹیاں بالخصوص پشتون قوم پرست پارٹیاں ڈیورنڈ لائن کو برطانوی سامراج کی نشانی قرار دے کر اسے تسلیم کرنے سے انکاری تھیں اور ان کا خیال تھاکہ انگریزوں نے اس لکیر کی بدولت پشتونوں کو دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دیا تھا۔کرد صاحب ایک ترقی پسندبلوچ ہونے کے ناطے اسی پالیسی پر گامزن تھے۔ان سے اپنے سوال کا جواب پاکر دوست نے فوراَ دوسرا سوال کیا”تو پھر آج زمین کے جس ٹکڑے پر ہم زندگی گزار رہے ہیں (یعنی کوئٹہ) یہ تاریخی طور پر کس سرزمین کا حصہ ہے“؟ ”افغان سرزمین کا“کرد صاحب نے دوبارہ جواب دیا۔”کیا آپ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان ہمارے بھی آباو اجداد کا ملک ہے“؟ بالکل۔۔۔ ایک بارپھر جواب آیا۔”تو کیا ہم تاریخی طور پر اپنی ہی سرزمین پر آباد نہیں؟اور کیا ایسی صورت حال میں ہم بھی محض ایک برادری کے بجائے قوم کہلانے کے مستحق نہیں؟اس سے پہلے کہ کرد صاحب کوئی جواب دیتے غلام سرور یاسین زئی ایک دم سے بول پڑے کہ”کون کہتا ہے کہ ہزارہ ایک قوم نہیں؟آ پ بالکل ایک قوم ہیں اور میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک شخص کی سوچ یا رائے کوفارمولا تسلیم کرتے ہوئے پورے اجتماع کی رائے قرار دینا ہرگز درست نہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ کسی بھی شخص کی رائے اس کی سوچ،عمومی نفسیات یا نظریے کاعکس ہوتا ہے۔ہم کسی سے آپ جناب کرکے بات کرتے ہیں تو کسی کو تم،تو اور اوئے کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔اس طرز عمل کے پیچھے دراصل مد مقابل کے بارے میں ہماری ذہنیت اور سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ہم کسی کی عزت کرنا چاہے تو اسے آپ جناب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن جنہیں حقیر جانتے ہیں ان سے تو تڑاخ کے ساتھ بات کرتے ہیں۔پاکستانی معاشرے کو قوم اور کمیونٹی میں تقسیم کرنے کے پیچھے بھی شاید یہی سوچ کارفرما ہو۔

”یہ ہماری سرزمین ہے،اس پر ہمارازیادہ حق ہے،تم ہماری سرزمین پر آباد ہو اس لئے ہماری برابری کا سوچنا بھی مت،ہم تعداد میں زیادہ ہیں اس لئے زیادہ طاقتور ہیں اور تم اقلیت میں ہو اور کمزور ہو۔ملک صوبے اور شہر کے وسائل پر پہلا حق ہمارا ہے ہاں اگر کچھ بچے کچے حقوق ہم تمھیں دے بھی دیں تو اسے ہمارا احسان سمجھ کر قبول کرلو۔کیوں کہ تم صرف ایک کمیونٹی ہو اس لئے اپنے جامے میں رہو۔تعلیم اور روزگار کے شعبے میں ہم سے مقابلے کی کوشش مت کرنا،تجارت پر پہلا حق ہمارا ہے اس لئے تم زیادہ ہاتھ پاؤں پھیلانے سے باز ہی رہو،اپنی ثقافت اور شناخت پر اترانا چھوڑ دو کیوں کہ کمزوروں کی اپنی کوئی ثقافت ہوتی ہے نہ شناخت اس لئے ہماری زبان اور ثقافت اپنالو کیوں کہ ہم طاقتور ہیں اور ایک برتر ثقافت کے مالک ہیں،یہ ملک، صوبہ اور شہر ہمارا ہے اس لئے اس کے لئے قوانین بھی ہم بنائیں گے تمھاراکام بس ان قوانین پر من و عن عمل کرنا ہے۔تمھارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ اپنا عقیدہ چھوڑ کر ہمارا عقیدہ اختیار کرلو ورنہ اپنی رسومات اپنے گھروں پر ہی ادا کرو تاکہ ہمارے آرام میں خلل نہ پڑے کیوں کہ آفٹر آل ہم قوم ہیں اور تم محض ایک کمیونٹی۔

یہ باتیں ہمارے لئے نئی نہیں اس طرح کی باتیں ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں،مجھے لفظ کمیونٹی سے کوئی چڑ نہیں اگر چڑ ہے تو اس سوچ اور ذہنیت سے جو ہمارے معاشرے کا خاصہ بن چکی ہے۔ہم جن کو ایلین(Alien) سمجھتے ہیں ان کے لئے کمیونٹی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ہندو،عیسائی،پارسی اور سکھ صدیوں سے اس خطے میں آباد ہیں۔پاکستان کے لئے ان کی قربانیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن انہیں آج تک کسی نے برابری کا درجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ انہیں ہندو کمیونٹی، عیسائی کمیونٹی،پارسی کمیونٹی اور سکھ کمیونٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایک عرصے سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ہزارہ ایک قوم ہے یا ایک کمیونٹی؟ میں قوم،قومیت اور کمیونٹی کی کلاسیکل تعریف میں نہیں پڑنا چاہتا کیوں کہ ان اصطلاحات کی درجنوں قسم کی تعریفیں ہو سکتی ہیں ۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت زیادہ تر مغربی ممالک میں قوم،قومیت اور کمیونٹی کے جو مفہوم لئے جاتے ہیں وہ ہماری وضع کردہ تعریفوں سے یکسر مختلف ہیں۔ مثلاَ امریکی نیشنلٹی رکھنے والا ہر شخص امریکی قوم کا حصہ ہے۔وہاں کسی مسلمان کمیونٹی یا پاکستانی کمیونٹی کا کوئی تصورنہیں (یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی وضع کردہ تعریف کے مطابق ان کے لئے پاکستانی یا مسلمان کمیونٹی کا ہی لفظ استعمال کرتے ہیں) وہاں کسی بھی پاکستانی امیریکن،انڈین امیریکن،عرب امیریکن یا افریکن امیریکن کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک سفید فام امریکی کو حاصل ہیں۔جہاں کینیا کے ایک پسماندہ علاقے سے ہجرت کرکے آنے والا ایک عام سیاہ فام ملک کا صدر منتخب ہو سکتا ہے۔جہاں اس بات سے قطع نظر کہ کس کے نین نقوش کیسے ہیں؟ کون کس عقیدے کا مالک ہے اور کون دنیا کے کس خطے سے آکر وہاں آباد ہوا ہے سب کے لئے آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ پاکستان جیسے ملکوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کے مصداق ہر کوئی اپنے اور اپنے سے کمزور لوگوں کیلئے خود ہی اصول وضع کرتا ہے۔اپنے”حقوق“ کے حصول کی خاطر کسی بھی حد تک جانے والا اپنے سے کمزورکو پاؤں تلے روندنے کے لئے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا۔

مجھے یاد ہے کہ کوئٹہ سے منتخب ہونے والے ہر ہزارہ نمائندے نے اپنے دورمیں اس بات کی مقدور بھر کوشش کی کہ پی ٹی وی کوئٹہ پرہزارگی زبان میں پروگرام نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہو لیکن وہ ان لوگوں کی مخالفت کے سبب ہر مرتبہ اپنے اس مقصد میں ناکام رہے جوبظاہر بڑے زور شور سے مادری زبانوں کے تحفظ اور ان کی تر ویج کے علمبردار بنے پھرتے ہیں لیکن باطن میں ہزارہ”کمیونٹی“ کواس بات کا حق دینے کے یکسر خلاف ہیں کہ وہ ”ان“ کے ٹیلی ویژن سے اپنی زبان میں پروگرام پیش کر یں۔بہت سارے دوست اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ جب کوئٹہ سے سچل نامی ایف ایم ریڈیو کا آغاز ہوا تو شروع میں ایک ہزارہ گی پروگرام بھی ان کی نشریات کا حصہ تھا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ بلو چستان کی ایک قوم پرست پارٹی نے باقاعدہ دباؤ ڈال کر اور دھونس دھمکی کے زریعےوہ پروگرام بند کرادیا کیوں کہ انہیں بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ ہزارہ “کمیونٹی” ان کی سرزمین پر رہتے ہوئے ریڈیو جیسے زریعہ ابلاغ کے توسط سے اپنی زبان اور ثقافت کی بات کرے۔حالانکہ مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اگر کوئی ہمیں ہزارہ قوم کہہ کر مخاطب بھی کرے تو اس کے اس طرز تخاطب سے ہمارے بدن پر سرخاب کے پر وں کا ہر گز اضافہ نہیں ہو نے والا لیکن اس سے کم از کم کہنے والے کے حسن نیت کا اندازہ ضرور ہوسکتا ہے اس کے برعکس جو لوگ جان بوجھ کر ہمیں ہزارہ کمیونٹی،برادری یا ہزارہ عوام کے نام سے یاد کرتے ہیں ان کے اس طرز عمل سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے خیالات ہمارے بارے میں کس نوعیت کے ہیں۔

میری نظر میں ہمارے لئے اس بات کی زیادہ اہمیت ہونی چاہئے کہ ہم خود اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟کیا ہم ایک ایسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جوکنویں کے مینڈک کی طرح اپنے حال میں مست اور باقی دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزارنے کی متمنی ہے؟جن کی تمام ہستی محض ان کے عقیدے یا ثقافت کے گرد گھومتی ہے؟کیا ان کی یہ خواہش نہیں کہ ان کی بھی ایک وسیع و عریض دنیا ہو جہاں وہ اپنا اظہار کر سکے؟ جہاں میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ تک ان کی رسائی ہو؟ اورجہاں انہیں اپنی شخصیت، زبان اور کلچرکو دنیا کے سامنے پیش کرنے کابنیادی اور انسانی حق حاصل ہو؟

دوسری جانب کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ گزشتہ تیرہ سالوں کے دوران تیرہ سو سے زائد جوانوں، بزرگو ں، ماؤں،بہنوں اور بچوں کی قربانی دینے کے باوجودہزارہ قوم نے جس استقامت اور پامردی سے حالات کا مقابلہ کیا وہ اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ ان میں ایک منظم اور اآگاہ قوم کی تمام نشانیاں موجود ہیں؟کیا یہ بھی ایک تلخ حقیقت نہیں کہ آج بھی سینکڑوں ہزارہ مرد،عورتیں اور معصوم بچے زخمی اورزندگی بھر کے لئے معزورہونے کے باوجودمکمل غرور اوراستقامت کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں؟۔کیا یہ فخر کی بات نہیں کہ کوئٹہ میں ہزارہ نسل کشی کے خلاف دنیا کے تقریباَ 35 ممالک میں ہزارہ جوانوں،بزرگوں،بچوں اور خواتین نے کثیر تعداد میں سڑکوں پر نکل کر دہشت گردی کے خلاف نہ صرف اپنی نفرت کا اظہار کیا بلکہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجوڑنے میں اہم کردار ادا کیا؟کیااس بات پر اب بھی شک کرنے کی کوئی گنجائش موجود ہے کہ ہزارہ ایک متمدن، متحرک بیدار اور باشعور قوم ہے؟

یہ ہزارہ قوم کی قربانیوں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے باشعور ہزارہ بہنوں اور بھائیوں کی قومی یکجہتی اور جدوجہد کا ہی ثمر ہے کہ آج نہ صرف پاکستان سمیت پوری دنیا کے باضمیر حلقے رنگ،نسل، زبان اور عقیدے سے بالاتر ہوکر ہزارہ قوم کی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں بلکہ برطانوی پارلیمنٹ سے لیکر اقوام متحدہ کے ایوانوں تک ہزار ہ قوم کی نسل کشی کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہورہی ہیں۔میرے خیال میں اب اس بات کا وقت نہیں رہا کہ ہم الفاظ کی بھول بھلیوں میں کھو کراپنا وقت ان کے ہجے بیان کرنے اور اپنی من پسند تشریح کرنے میں ضائع کریں۔بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ، ایک آگاہ اور باشعور قوم کا فردہونے کا ثبوت دیں اور مشکل کی اس گھڑی میں الفاظ کی جنگ میں پڑنے کے بجائے قوم کے مورال کو بلند رکھنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں۔ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اب ہم اکیلے نہیں ،ہم گمنام بھی نہیں۔جن کا خیال تھا کہ ہمارا قتل عام کرکے وہ ہمیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیں گے انہیں یہ دیکھ کر یقیناَ مایوسی ہوئی ہوگی کہ ہماری قبروں کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوا ہے اس سرزمیں سے ہمارا رشتہ بھی اتنا ہی گہرا ہوا ہے۔ آج ہم اپنا سر فخر سے بلند کرکے کہہ سکتے ہیں کہ “ہاںمیں ہزارہ ہوں “اور شاید کسی کو یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ کون ہزارہ؟

عالمی یوم یکجہتی ہزارہ کی مناسبت سے لکھا گیا ایک مضمون

حواله: چنگیزی دات نیت


Join the Conversation